حضرت عمر فاروقؓ اور انصاف کا مشہور واقعہ
حضرت عمر فاروقؓ، جو اسلام کے دوسرے خلیفہ راشد تھے، عدل و انصاف کے اعلیٰ ترین اصولوں کو نافذ کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ ان کی خلافت کے زمانے میں پیش آنے والا ایک واقعہ ان کی انصاف پسندی کی مثال کے طور پر ہمیشہ یاد کیا جاتا ہے۔ یہ واقعہ مصر کے ایک گورنر کے بیٹے اور ایک غریب قبطی (مصر کے رہنے والے غیر مسلم) کے درمیان پیش آیا۔
واقعہ کی ابتدا
حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں مصر کے گورنر حضرت عمرو بن العاصؓ تھے۔ ایک دن ان کے بیٹے نے ایک مقابلے میں حصہ لیا۔ یہ مقابلہ دوڑ کا تھا، اور اس میں ایک غریب قبطی بھی شامل تھا۔ دوڑ کے اختتام پر قبطی نے گورنر کے بیٹے کو شکست دے دی۔ گورنر کے بیٹے کو یہ ہار برداشت نہ ہوئی، اور غصے میں آکر اس نے قبطی کو کوڑے مارے اور کہا:
“تمہیں یہ جرأت کیسے ہوئی کہ تم گورنر کے بیٹے سے آگے نکل جاؤ؟”
قبطی کا مدینہ منورہ پہنچنا
ظلم سہنے کے بعد قبطی نے فیصلہ کیا کہ وہ انصاف کے لیے مدینہ منورہ جائے گا۔ اس نے یہ سفر طے کیا اور مدینہ پہنچ کر خلیفۂ وقت حضرت عمر فاروقؓ کے پاس اپنی فریاد لے کر گیا۔ قبطی نے سارا واقعہ تفصیل سے بیان کیا اور بتایا کہ گورنر کے بیٹے نے اپنی طاقت اور حیثیت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اس پر ظلم کیا۔
حضرت عمرؓ کا ردعمل
حضرت عمرؓ نے قبطی کی بات سن کر فوراً مصر کے گورنر عمرو بن العاصؓ اور ان کے بیٹے کو مدینہ طلب کیا۔ حکم ملتے ہی گورنر اور ان کا بیٹا مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ حضرت عمرؓ نے قبطی کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر ان سے وضاحت طلب کی۔ جب گورنر کے بیٹے نے اعتراف کر لیا تو حضرت عمرؓ نے قبطی کو حکم دیا کہ وہ گورنر کے بیٹے کو انہی کوڑوں سے سزا دے جن سے اسے مارا گیا تھا۔
انصاف کا نفاذ
قبطی نے گورنر کے بیٹے کو کوڑے مارے، یہاں تک کہ اس کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا۔ حضرت عمرؓ نے یہ منظر دیکھ کر فرمایا
“قبطی، اگر تم گورنر کو بھی کوڑے مارنا چاہتے ہو تو مار سکتے ہو، کیونکہ یہ سب اس کے بیٹے کے ظلم کے تحت ہوا ہے۔”
قبطی نے کہا کہ وہ اپنی شکایت کا ازالہ پا چکا ہے اور مزید کچھ نہیں چاہتا۔
حضرت عمرؓ کا تاریخی جملہ
اس کے بعد حضرت عمرؓ نے گورنر عمرو بن العاصؓ کو مخاطب کرتے ہوئے وہ تاریخی جملہ کہا جو آج بھی انصاف کی علامت سمجھا جاتا ہے
“اے عمرو! تم لوگوں کو کب سے یہ حق ملا کہ تم نے آزاد انسانوں کو غلام بنا لیا، حالانکہ ان کی ماؤں نے انہیں آزاد پیدا کیا تھا؟”
واقعہ کا نتیجہ
یہ واقعہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ اسلام میں قانون سب کے لیے برابر ہے، چاہے وہ خلیفہ کا قریبی ہو یا ایک عام شخص۔ حضرت عمرؓ کی قیادت میں کسی بھی طاقتور شخص کو کمزور پر ظلم کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس واقعے نے نہ صرف قبطی کو انصاف دلایا بلکہ ایک واضح پیغام دیا کہ اسلام میں عدل کی بنیاد پر حکمرانی کی جاتی ہے۔
سبق
یہ واقعہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ طاقت یا حیثیت کا ناجائز استعمال کبھی قابل قبول نہیں ہوتا۔ اسلام کے اصولوں کے مطابق، ہر انسان برابر ہے اور انصاف کی فراہمی میں کسی کے ساتھ ناانصافی نہیں کی جا سکتی۔ حضرت عمرؓ کی شخصیت ہمیں سکھاتی ہے کہ قیادت کا مطلب صرف حکومت کرنا نہیں بلکہ ہر مظلوم کو انصاف فراہم کرنا اور طاقتور کو ظلم سے روکنا ہے۔